تم میں سے ہر شخص کی موت اس حالت میں آنی چاہیے کہ وہ اللہ سے اچھا گمان رکھتا ہو"۔

تم میں سے ہر شخص کی موت اس حالت میں آنی چاہیے کہ وہ اللہ سے اچھا گمان رکھتا ہو"۔

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں کہ میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو آپ کی وفات سے تین دن پہلے یہ فرماتے ہوئے سنا: "تم میں سے ہر شخص کی موت اس حالت میں آنی چاہیے کہ وہ اللہ سے اچھا گمان رکھتا ہو"۔

[صحیح] [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]

الشرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اس بات کی ترغیب دے رہے ہیں کہ ایک مسلمان کی وفات اللہ سے حسن ظن رکھتے ہوئے ہونی چاہیے۔ موت کے وقت امید کا پہلو غالب رہنا چاہیے اور دل میں یہ بات ہونی چاہیے کہ اللہ اس پر رحم کرے گا اور عفو و درگزر فرمائے گا۔ کیوں کہ دراصل خوف مطلوب ہے عمل کو بہتر بنانے کے لیے اور وہ وقت عمل کا وقت نہیں ہے۔ لہذا وہاں امید کا پہلو غالب ہونا چاہیے۔

فوائد الحديث

نبیﷺ کا اپنی امت کی بھلائی کا خیال رکھنا اوران کے تمام احوال میں مہربانی وشفقت کا رویہ اپنانا، حتی کہ اپنے مرض الموت میں امت کو نصیحت کرنا اورنجات کی راہوں کی طرف رہنمائی کرنا۔

طیبی کہتے ہیں : ابھی اپنے اعمال کو بہتر بنا لو، تاکہ تم موت کے وقت اللہ سے اچھا گمان رکھ سکو۔ کیوں کہ جس کا عمل موت سے پہلے برا ہوگا، وہ موت کے وقت اللہ سے اچھا گمان نہيں رکھ سکے گا۔

بندے کے لیے کامل ترین حالت امید اور خوف کے درمیان توازن اور محبت کا غلبہ ہے۔ محبت گاڑی ہے، امید سواری ہے، خوف ڈرائیور ہے اور اللہ اپنے فضل و کرم سے منزل مقصود تک پہنچاتا ہے۔

جب کسی کی موت کا وقت آ جائے، تو اس کے پاس بیٹھے لوگوں کو امید کے پہلو کے غلبہ اور اللہ سے حسن ظن کا ماحول بنائے رکھنا چاہیے۔ کیوں کہ اس حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بات اپنی موت سے تین دن پہلے کہی ہے۔

التصنيفات

دل کے اعمال