اللہ کے رسول ﷺ نے صدقۂ فطر مسلمان غلام اور آزاد، مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے (سب پر) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض قرار دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ اسے نماز عید کے لیے…

اللہ کے رسول ﷺ نے صدقۂ فطر مسلمان غلام اور آزاد، مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے (سب پر) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض قرار دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ اسے نماز عید کے لیے لوگوں کے نکلنے سے پہلے پہلے ادا کر دیا جائے۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: اللہ کے رسول ﷺ نے صدقۂ فطر مسلمان غلام اور آزاد، مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے (سب پر) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض قرار دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ اسے نماز عید کے لیے لوگوں کے نکلنے سے پہلے پہلے ادا کر دیا جائے۔

[صحیح] [متفق علیہ]

الشرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے رمضان کے بعد زکاۃ الفطر واجب کی ہے، جس کی مقدار ایک صاع یعنی چار مد ہے۔ مد دراصل ایک متوسط انسان کے لپ بھر کو کہتے ہیں۔ زکاۃ الفطر ہر ایسے مسلمان پر پر واجب ہے، جس کے پاس ایک دن ایک رات کے کھانے سے زائد چیز موجود ہو۔ خواہ وہ آزاد ہو کہ غلام، مرد ہو کہ عورت اور چھوٹا ہو کہ بڑا۔ انسان زکاۃ الفطر اپنی اور اپنے زیر کفالت لوگوں کی جانب سے ادا کرے گا۔ آپ نے ساتھ میں یہ حکم دیا کہ فطرہ لوگوں کے عید کی نماز کے لیے نکلنے سے پہلے پہلے ادا کر دیا جائے۔

فوائد الحديث

زکاۃ الفطر چھوٹے وبڑے اور آزاد و غلام ہر مسلمان کی جانب سے دینا واجب ہے۔ دینے کا کام ولی اور آقا کرے گا۔ انسان زکاۃ الفطر اپنی جانب سے، اپنے بال بچوں کی جانب سے اور ان تمام لوگوں کی جانب سے ادا کرے گا، جن کا نفقہ اس کے اوپر واجب ہے۔

جنین کی طرف سے زکاۃ الفطر نکالنا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔

اس بات کی وضاحت کہ زکاۃ الفطر میں کون سی چیز نکالی جائے۔ دراصل زکاۃ الفطر میں لوگوں کی عام خوردنی کی چيز نکالنی ہے۔

زکاۃ الفطر عید کی نماز سے پہلے پہلے نکال دینا واجب ہے۔ افضل یہ ہے کہ عید کی صبح نکالی جائے۔ عید سے ایک دو دن پہلے نکالنا بھی جائز ہے۔

التصنيفات

صدقہ فطر